27 اپریل 2020

کورونا وائرس کا علاج: دنیا کورونا ویکسین کے لیے انڈیا کی طرف کیوں دیکھ رہی ہے

امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے دو ہفتے قبل کہا تھا کہ انڈیا اور امریکہ کورونا وائرس کے خلاف ویکسین تیار کرنے کے لیے مل کر کام کر رہے ہیں۔
تاہم امریکی سیکریٹری خارجہ کا یہ بیان کسی کے لیے حیران کن نہیں تھا۔
دونوں ممالک نے مشترکہ طور پر تین دہائیوں سے زیادہ عرصے کے دوران بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ ویکسین تیار کرنے کا پروگرام چلا رکھا ہے۔
ماضی میں دونوں ممالک ڈینگی، آنتوں کی بیماریوں، انفلوئنزا اور ٹی بی کی روک تھام کے لیے کام کرتے رہے ہیں اور ڈینگی کے لیے ویکسین کی آزمائش کا مستقبل قریب میں منصوبہ بنایا گیا ہے۔
انڈیا کا شمار دنیا بھر میں ادویات اور ویکسین تیار کرنے والے سب سے بڑے ممالک میں ہوتا ہے۔ یہاں تقریباً درجن بھر ویکسین تیار کرنے والی بڑی کمپنیاں اور کئی چھوٹے ادارے پولیو اور نمونیا سے لے کر خسرہ اور روبیلا جیسے امراض کے خلاف استعمال ہونے والی خوراک بناتی ہیں۔
اب نصف درجن سے زیادہ انڈین دوا ساز کمپنیاں کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے ویکسین تیار کر رہی ہیں۔
ان میں سے ایک سیرم انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا ہے اور یہ دنیا بھر میں ویکسین کی خوراک تیار اور فروخت کرنے کے معاملے میں تعداد کے حساب سے سب سے بڑی ویکسین ساز کمپنی ہے۔ تقریباً 53 سال سے دوائیں بنانے والی یہ کمپنی ہر سال ویکسین کی ڈیڑھ ارب خوراک تیار کرتی ہے۔
یہ تمام خوراک بنیادی طور پر مغربی ہند کے شہر پونے میں قائم دو مراکز میں تیار ہوتی ہیں۔ نیدرلینڈز اور جمہوریہ چیک میں بھی اس ادارے کے دو چھوٹے چھوٹے پلانٹس ہیں اور اس کمپنی میں تقریبا 7000 افراد کام کرتے ہیں۔
یہ کمپنی 165 ممالک میں تقریبا مختلف 20 ٹیکے یا وکیسین فراہم کرتی ہے۔ اس کی بنائی ہوئی 80 فیصد ویکسین برآمد کی جاتی ہیں جس کی اوسط قیمت 50 امریکی سینٹ فی خوراک ہے جو کہ دنیا میں سب سے سستی مانی جاتی ہے۔
اب اس کمپنی نے امریکی بایوٹک کمپنی کوڈاجینکس کے ساتھ شراکت قائم کی ہے تاکہ ایسی ویکسین تیار کی جا سکے جو کہ 'براہ راست تخفیف' کرتی ہو۔ دنیا بھر میں اس وقت کورونا سے بچاؤ کے لیے 80 سے زیادہ ویکسینز تیاری کے مختلف مراحل میں ہیں۔
یہ ویکسین بیماری پیدا کرنے والے وائرس کی قوت کو کم کر کے یا پھر اس کے نقصان دہ عوامل کو ختم کر کے بنائی جاتی ہے لیکن اس وائرس کو زندہ رکھا جاتا ہے۔
چونکہ لیب میں بیماری پھیلانے والے جرثومے کی قوت کم کر دی جاتی ہے، اس لیے اس سے کوئی بیماری پیدا نہیں ہوتی ہے اور اگر ہوتی بھی ہے تو بہت ہلکی پھلکی۔
سیرم انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا کے چیف ایگزیکٹو آفیسر ادار پوناوالا نے مجھے فون پر بتایا کہ ’ہم اپریل میں اس ویکسین کی جانوروں (چوہوں اور بندروں) پر آزمائش کا منصوبہ بنا رہے ہیں اور ستمبر تک ہم انسانوں پر اس کی تجربے شروع کرنے کے قابل ہو سکتے ہیں۔‘
ادار پوناوالا کی کمپنی آکسفورڈ یونیورسٹی کی طرف سے تیار کی جانے والی ویکسین کی بڑے پیمانے پر پیداوار میں بھی شراکت دار ہے۔ اس ویکسین کو حکومت برطانیہ کی حمایت حاصل ہے۔
اس ویکسین کی بنیاد بن مانس میں پایا جانے والا وائرس بنے گا۔ جمعرات کو آکسفورڈ میں انسانوں پر کلینیکل ٹرائلز کا آغاز ہوا ہے اور اگر سب کچھ ٹھیک رہا تو سائنسدانوں کو یہ امید ہے کہ ستمبر تک ویکسین کی کم از کم دس لاکھ خوراکیں تیار ہو جائیں گی۔کی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔
لندن کے امپیریل کالج میں عالمی صحت کے پروفیسر ڈیوڈ نببارو کا کہنا ہے کہ انسانوں کو 'مستقبل قریب میں نظر آنے والی مدت تک' کورونا وائرس کے خطرے کے ساتھ زندگی گزارنا پڑے گا کیونکہ اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ اس کے لیے کوئی کامیاب ویکسین تیار ہو ہی جائے گی۔
اور یونیورسٹی آف ورمونٹ میڈیکل سینٹر میں ویکسین پر تحقیق کرنے والے ٹم لاہے نے خبردار کیا ہے کہ 'کورونا وائرس کی ویکسین کے متعلق فکرمند ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اس سے مدافعتی نظام کو نقصان بھی پہنچ سکتا ہے۔'
عالمی سطح پر کووڈ 19 کے انفیکشن سے پہلے ہی 25 لاکھ سے زیادہ افراد متاثر ہو چکے ہیں اور ان میں سے پونے دو لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک بھی ہو چکے ہیں۔
ایسے میں ایک محفوظ ویکسین تیار کرنا جو بڑے پیمانے پر تیار کی جائے اس کے لیے ایک مدت درکار ہے اور ایک دقت طلب معاملہ ہے کیونکہ اسے جاری کرنے سے قبل اس کے لیے ہر قسم کے افراد پر اس کی کیمیائی اور حیاتیاتی طور پر جانچ ہونی ہے۔لیکن ادار پوناوالا کہتے ہیں: 'ہم پر امید ہیں کہ ہم دو سال یا اس سے کم عرصے میں محفوظ اور موثر ویکسین تیار کر لیں گے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں