30 اپریل 2020

کیا افغان طالبان کی صفوں میں ہزارہ شیعہ رہنما کی شمولیت ماضی کی پالیسی میں تبدیلی ہے

افغان طالبان نے ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھنے والے ایک شیعہ کمانڈر کا انٹرویو اپنی ویب سائٹ پر شائع کیا ہے جس کے بعد یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ آیا یہ پہلی بار ہے کہ طالبان نے کسی شیعہ رہنما کو تنظیم میں شامل کیا اور کیا طالبان اپنی ماضی کی پالیسیوں میں تبدیلی لا رہے ہیں؟
افغان طالبان کی ویب سائٹ پر ہزارہ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے شیعہ کمانڈر مولوی مہدی مجاہد کا ویڈیو انٹرویو شائع کیا گیا ہے جس میں انھوں نے ہزارہ برادری سے کہا ہے کہ جیسے وہ سوویت یونین کے خلاف اپنے سنی بھائیوں کے ساتھ کھڑے تھے اسی طرح اب افغانستان پر حملہ آوروں کے خلاف بھی طالبان کا ساتھ دیں‘
ویڈیو انٹرویو میں مولوی مہدی نے ہزارہ کمیونٹی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ سوویت یونین کے خلاف سنی بھائیوں کے ساتھ فرنٹ لائن پر موجود نہیں تھے تو اب  طالبان کے ساتھ ملک میں ان حملہ آوروں کے خلاف کیوں ساتھ نہیں دیتے'
اس بارے میں افغانستان میں طالبان کے ترجمان زبیح اللہ مجاہد نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ تعیناتی اب نہیں کی گئی بلکہ مولوی مہدی مجاہد ان کے ساتھ جہاد میں ایک عرصے سے شامل ہیں
انھوں نے کہا کہ وہ کافی عرصے سے صوبہ سرپل میں بلخاب ضلع کے سربراہ تعینات ہیں انھوں نے مزید بتایا کہ ہاں یہ ضرور ہے کہ ان کا یہ انٹرویو اب پہلی مرتبہ ان کی ویب سائٹ پر شائع ہوا ہے۔
واضح رہے افغان طالبان خالصتاً ایک سنی تنظیم کے طور پر 1990 کی دہائی میں ابھر کر سامنے آئی تھی اور اس دوران ہزارہ برادری کے لوگوں پر متعدد حملے کیے گئے تھے۔
ایک طویل عرصے تک افغان طالبان نے افغانستان میں شیعہ اقلیتی ہزارہ برادری پر متعدد حملے کیے لیکن اب بظاہر پہلی مرتبہ ایسے طالبان کمانڈر کا انٹرویو سامنے آیا ہے جو ہزارہ برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔
اگرچہ طالبان اب یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ مولوی مہدی مجاہد کافی عرصے سے ان کے ساتھ ہیں لیکن دنیا کے سامنے ان کا چہرہ پہلی مرتبہ آیا ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں